Sunday 16 August 2015

پیاس بھی ہم ہیں پیاس بجھانے والے بھی ہم

پیاس بھی ہم ہیں، پیاس بجھانے والے بھی ہم
تیر بھی ہم ہیں، تیر چلانے والے بھی ہم
جانے کیا تاریخ لکھے اپنے بارے میں
دار بھی ہم ہیں، دار پر آنے والے بھی ہم
موسم پر الزام، نہ قرض کوئی ناخن پر
زخم بھی ہم ہیں، زخم لگانے والے بھی ہم
جسم سے لے کر روح کی گہری تنہائی تک
دِیا بھی ہم ہیں، دِیا جلانے والے بھی ہم
ان گلیوں بازاروں میں اور ان سڑکوں پر
خاک بھی ہم ہیں، خاک اڑانے والے بھی ہم
محفل سُونی دیکھ کے اکثر یاد آتا ہے
رنگ بھی ہم ہیں، رنگ جمانے والے بھی ہم
بھولنے والوں کو شاید معلوم نہیں ہے
یاد بھی ہم ہیں، یاد دِلانے والے بھی ہم ہم
غزلیں کہنے والے شجرہ رکھتے ہیں
پہلے بھی ہم، بعد میں آنے والے بھی ہم

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment