ہاں کچھ تو مزاج اپنا جنوں خیز بہت ہے
اور کچھ یہ رہِ عشق، دلآویز بہت ہے
مرنے کے لیے تیشۂ فرہاد ہے کافی
جینے کے لیے حیلۂ پرویز بہت ہے
اب کے نہ کوئی قصر نہ ایوان بچے گا
آنکھوں میں دِیے، دل میں ستارے ہیں فروزاں
ورنہ یہ شبِ تار، غم انگیز بہت ہے
کچھ بزم کے آداب بھی ملحوظ تھے اس کو
اور کچھ وہ مزاجاً بھی کم آمیز بہت ہے
تم رنگ ہو، خوشبو ہو، ذرا دھیان میں رہنا
صحرائے محبت کی ہوا تیز بہت ہے
مقبول عامر
No comments:
Post a Comment