Sunday 23 August 2015

ہم دلگرفتہ ایک زمانے سے تو رہے

ہم دل گرفتہ ایک زمانے سے تو رہے
یہ بات ہر کسی کو بتانے سے تو رہے
بدلے نہ ہوں گے آپ، یہ ہم کیسے مان لیں
آخر جنابِ من بھی زمانے سے تو رہے
اب تم بھی ناصحوں کی طرح بولنے لگے
اب ہم تمہاری بات میں آنے سے تو رہے
جو زخم آستینوں کی جانب سے آئے ہیں
وہ زخم دوستوں کو دکھانے سے تو رہے
محفل میں سب کے سامنے کیوں پوچھتے ہیں آپ
ایسے ہم اپنا حال سنانے سے تو رہے
تم نے قریب اپنے بٹھایا ہے پہلی بار
اب ہم تمہارے پاس سے جانے سے تو رہے

سعید الظفر صدیقی

No comments:

Post a Comment