Sunday 23 August 2015

زلف میں بل اور کاکل پرخم پیچ کے اوپر پیچ پڑا

زلف میں بَل اور کاکل پُرخم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
وہ ہوئی سرکش یہ ہوئی برہم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
دل کو ہے پیچ و تاب الم سے، دودِ جگر پیچیدہ دم سے
دیکھ تو کیسا عشق میں ہمدم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
پیچ سے وہ کرتا ہے یاری باتیں اس کی پیچ کی ساری
نکلیں اس کے پیچ سے کیا ہم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
دل تو کمندِ غم میں پھنسا ہے، جان اسیرِ دامِ بلا ہے
عشق کے ہاتھوں ناک میں ہے دم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
یار نے جب یکہ پیچہ سج کر باندھا پھر سرپیچ کو سر پر
ہو گیا اپنا اور ہی عالم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
دونوں طرف کو تار نظر کے کھینچتے ہیں دل دونوں طرف سے
خوب پتنگوں میں ہے باہم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
موت نے آ کر ٹھونکا جب خم، بھول گیا تو کشتی اس دم
یوں تو بڑا تھا سب پر رُستم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
زلف نے کھل کر پیچ پہ مارے پیچ میں لائے دل کو ہمارے
چوٹی کھلی تو اور بھی اس دم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
جبکہ فتح پیچ اس نے سر پہ گوندھ کے باندھا جوڑا کافر
دل نے جانا آج مسلّم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا
عشق ظفرؔ ہے گورکھ دھندا اس کے کھولے پیچ کوئی کیا
ایک کھلا تو دوسرا محکم، پیچ کے اوپر پیچ پڑا​

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment