Saturday, 22 August 2015

میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا

میں زخم کھا کے گرا تھا کہ تھام اس نے لیا
معاف کر کے مجھے انتقام اس نے لیا
میں سو گیا تو کوئی نیند سے اٹھا مجھ میں
پھر اپنے ہاتھ میں سب انتظام اس نے لیا
کبھی بھلایا، کبھی یاد کر لیا اس کو
یہ کام ہے تو بہت مجھ سے کام اس نے لیا
نہ جانے کس کو پکارا گلے لگا کے مجھے
مگر وہ میرا نہیں تھا، جو نام اس نے لیا
بہار آئی تو پھولوں سے ان کی خوشبو لی
ہوا چلی، تو ہوا سے خرام اس نے لیا
فنا نے کچھ نہیں مانگا سوال کرتے ہوئے
اسی ادا پہ خدا سے دوام اس نے لیا

فیصل عجمی

No comments:

Post a Comment