Sunday 16 August 2015

آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا

آنکھ کی دہلیز سے اترا تو صحرا ہو گیا
قطرۂ خوں پانیوں کے ساتھ رسوا ہو گیا
خاک کی چادر میں جسم و جاں سمٹتے ہی نہیں
اور کچھ رنگِ زمیں بھی دھوپ جیسا ہو گیا
ایک اک کر کے مرے سب لفظ مٹی ہو گئے
اور اس مٹی میں دھنس کر میں زمیں کا ہو گیا
تجھ سے کیا بچھڑے کہ آنکھیں ریزہ ریزہ ہو گئیں
آئینہ ٹوٹا تو اک آئینہ خانہ ہو گیا
اے ہوائے وصل! چل، پھر سے گُلِ ہجراں کِھلا
سر اُٹھا پھر اے نہالِ غم! سویرا ہو گیا
اے جمالِ فن! اسے مت رو کہ تن آسان تھا
تیری دنیاؤں کا خاور، صَرفِ دنیا ہو گیا

ایوب خاور

No comments:

Post a Comment