ضدوں سمیت کبھی دل کو چھوڑنا ہو گا
یہ آئینہ کسی پتھر پہ توڑنا ہو گا
یہی نہیں کہ ہمیں توڑ کر گیا ہے کوئی
اسے بھی خود کو بہت دیر جوڑنا ہو گا
تُلی ہوئی بہت سرکشی پہ ہجر کی رُت
قریب ساحلِ دریا بِچھی ہے پیاس مِری
ہوس کو دامنِ دریا نچوڑنا ہو گا
طلب کو تُو نہ مِلے گا، تو اور لوگ بہت
کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہو گا
کبھی متاعِ سفر تھا جو دلربا محسنؔ
خبر نہ تھی اسے رَستے میں چھوڑنا ہو گا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment