Monday, 10 August 2015

ضدوں سمیت کبھی دل کو چھوڑنا ہو گا

ضدوں سمیت کبھی دل کو چھوڑنا ہو گا
یہ آئینہ کسی پتھر پہ توڑنا ہو گا
یہی نہیں کہ ہمیں توڑ کر گیا ہے کوئی
اسے بھی خود کو بہت دیر جوڑنا ہو گا
تُلی ہوئی بہت سرکشی پہ ہجر کی رُت
یہ رُت رہی تو کہیں سر ہی پھوڑنا ہو گا
قریب ساحلِ دریا بِچھی ہے پیاس مِری
ہوس کو دامنِ دریا نچوڑنا ہو گا
طلب کو تُو نہ مِلے گا، تو اور لوگ بہت
کسی طرف تو یہ طوفاں بھی موڑنا ہو گا
کبھی متاعِ سفر تھا جو دلربا محسنؔ
خبر نہ تھی اسے رَستے میں چھوڑنا ہو گا

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment