Sunday 16 August 2015

چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں

چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں
تمہاری آنکھ کا احوال خواب پوچھتے ہیں
کہاں کہاں ہوئے روشن ہمارے بعد چراغ
ستارے دیدۂ تر سے حساب پوچھتے ہیں
وہ تشنہ لب بھی عجب ہیں جو موجِ صحرا سے
سراغِ حبس، مزاجِ سراب پوچھتے ہیں
کہاں بسی ہیں وہ یادیں اجاڑنا ہے جنہیں
دِلوں کی بانجھ زمیں سے عذاب پوچھتے ہیں
برس پڑیں تیری آنکھیں تو پھر یہ بھید کھلا
سوال خود سے بھی اپنا جواب پوچھتے ہیں
ہوا کی ہمسفری سے اب اور کیا حاصل
بس اپنے شہر کو خانہ خراب پوچھتے ہیں
جو بے نیاز ہیں خود اپنے حسن سے محسنؔ
کہاں وہ مجھ سے میرا انتخاب پوچھتے ہیں

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment