دل سا نگار خانہ کہاں دوسرا بنے
جس میں کہ جو بھی نقش بنے یار کا بنے
ایسی جمالِ یار کی قدرت کہ کیا کہوں
دل آپ منتظر ہے کہ مِٹ جائے یا بنے
کچھ بھی نہیں کیا تو ہیں چرچے اس قدر
اب سنگ آ رہے ہیں تو کس فکر میں ہے تُو
تُو ہی تو چاہتا تھا کہ تُو آئینہ بنے
بننا ہی کچھ اگر ہے تو انسان بن میاں
یہ بھی ہے کوئی کام کہ بندہ خدا بنے
اک غم بنا رہے ہیں میاں اپنی طرز پر
ہم دل شکستگاں سے بھلا اور کیا بنے
یہ حال ہو تو ہمدم و محرم کسے کریں
خود سے بھی کچھ کہیں تو یہاں واقعہ بنے
یہ بے وفائی ہے، تو حقیقت ہے کس کا نام
جب تُو نہیں ہے اس کا تو وہ کیوں ترا بنے
منزل ملی تو سجدہ کیا، اور یہ کہا
اس پر سلام ہو جو علیؔ راستہ بنے
علی زریون
No comments:
Post a Comment