کس گھاٹ اترنا تھا لبِ جُو نکل آئے
پھر شام ہوئی دشت میں آہُو نکل آئے
اڑنے لگی دیوارِ قفس سے کوئی تحریر
یا تیرے اسیروں ہی کے بازُو نکل آئے
اس ڈر سے میں سویا نہیں نیندوں کے سفر میں
پھر عدل کی زنجیر ہلا دی ہے کسی نے
پھر وعدۂ فردا پہ ترازُو نکل آئے
ہم صبر کی تلقین کیا کرتے تھے جس کو
اب کے اُسے دیکھا ہے تو آنسُو نکل آئے
آنکھوں سے الجھنے لگا ہے پھر جوہرِ گریہ
اِس عالمِ وحشت میں اگر تُو نکل آئے
آئے جو سلیمؔ اب سرِ فہرست سخن ہم
کچھ حِفظِ مراتب کے بھی پہلُو نکل آئے
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment