Friday 28 August 2015

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم

کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم
دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم
دیتے نہیں سُجھائی جو دنیا کے خط و خال
آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم
یاں تو ہر اک قدم پہ خلل ہے حواس کا
اے خضرؑ! باز آئے تِری ہمرہی سے ہم
دیتے ہیں لوگ آج اسے شاعری کا نام
پڑھتے تھے لوحِ دل سے کچھ آشفتگی سے ہم
رہتی ہے انجمؔ ایک زمانے سے گفتگو
کرتے نہیں کلام بظاہر کسی سے ہم

انجم رومانی

No comments:

Post a Comment