کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم
دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم
دیتے نہیں سُجھائی جو دنیا کے خط و خال
آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم
یاں تو ہر اک قدم پہ خلل ہے حواس کا
اے خضرؑ! باز آئے تِری ہمرہی سے ہم
دیتے ہیں لوگ آج اسے شاعری کا نام
پڑھتے تھے لوحِ دل سے کچھ آشفتگی سے ہم
رہتی ہے انجمؔ ایک زمانے سے گفتگو
کرتے نہیں کلام بظاہر کسی سے ہم
دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم
دیتے نہیں سُجھائی جو دنیا کے خط و خال
آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم
یاں تو ہر اک قدم پہ خلل ہے حواس کا
اے خضرؑ! باز آئے تِری ہمرہی سے ہم
دیتے ہیں لوگ آج اسے شاعری کا نام
پڑھتے تھے لوحِ دل سے کچھ آشفتگی سے ہم
رہتی ہے انجمؔ ایک زمانے سے گفتگو
کرتے نہیں کلام بظاہر کسی سے ہم
انجم رومانی
No comments:
Post a Comment