Friday, 21 August 2015

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی ذرا اور

ہو جائے گی جب تم سے شناسائی، ذرا اور
بڑھ جائے گی شاید مری تنہائی، ذرا اور
کیوں کھل گئے لوگوں پہ مری ذات کے اسرار
اے کاش! کہ ہوتی مری گہرائی، ذرا اور
پھر ہاتھ پہ زخموں کے نشاں گِن نہ سکو گے
یہ الجھی ہوئی ڈور، جو سلجھائی ذرا اور
تردید تو کر سکتا تھا، پھیلے گی مگر بات
اس طور بھی ہو گی تری رسوائی، ذرا اور
کیوں ترکِ تعلق بھی کیا، لوٹ بھی آیا
اچھا تھا کہ ہوتا جو وہ ہرجائی، ذرا اور
ہے دِیپ تری یاد کا روشن ابھی دل میں
یہ خوف ہے لیکن جو ہوا آئی ذرا اور
لڑنا وہیں دشمن سے، جہاں گھیر سکو تم
جیتو کے تبھی، ہو گی جو پسپائی ذرا اور
بڑھ جائیں گے کچھ اور لہو بیچنے والے
ہو جائے اگر شہر میں مہنگائی ذرا اور
اک ڈوبتی دھڑکن کی صدا لوگ نہ سن لیں
کچھ دیر کو بجنے دو یہ شہنائی ذرا اور

آنس معین بلے

No comments:

Post a Comment