جو گھر بھی ہے ہم صورتِ مقتل ہے ذرا چل
کھٹکائیں شہیدوں کے دریچوں کو ہوا چل
اک دوڑ میں ہر منظر ہستی ہے چلا چل
چلنے کی سکت جتنی ہے، اس سے بھی سوا چل
ہو مصلحت آمیز کہ نا مصلحت آمیز
رُکنا ہے، تو اک بھیٹر کو ہمراہ لگا لے
چلنا ہے، تو بے ہمسفر و راہنما چل
بے معنئ الفاظ بھی الفاظ کا فن ہے
سمجھے کہ نہ سمجھے کوئی انبار لگا چل
تعزیرِ تعلق میں بھی ہے لطفِ تعلق
کچھ اور نہیں ہے، تو مرا دل بھی دُکھا چل
ناخواندگیاں الٹیں گی تاریخ کے اوراق
نام اپنا کسی صفحۂ سادہ پہ لکھا چل
جذبوں کے در و بام پہ طاری ہے خموشی
نادارئ احساس کی زنجیر ہلا چل
سوئی ہوئی لگتی ہیں سبھی جاگتی آنکھیں
اوڑھے ہوۓ تُو بھی کوئی خوابوں کی رِدا چل
اعجاز صدیقی
No comments:
Post a Comment