Monday 10 August 2015

صیاد تو امکان سفر کاٹ رہا ہے

صیاد تو امکانِ سفر کاٹ رہا ہے
اندر سے بھی کوئی مِرے پر کاٹ رہا ہے
اے چادر منصب، تِرا شوق گل تازہ
شاعر کا تِرے دستِ ہنر کاٹ رہا ہے
جس دن سے شمار اپنا پنہ گیروں میں ٹھہرا
اس دن سے تو لگتا ہے کہ گھر کاٹ رہا ہے
کس شخص کا دل میں نے دُکھایا تھا کہ اب تک
وہ میری دعاؤں کا اثر کاٹ رہا ہے
قاتل کو کوئی قتل کے آداب سکھائے
دستار کے ہوتے ہوئے سر کاٹ رہا ہے

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment