Saturday, 1 August 2015

حیات کیسے کٹے گی ہنسی خوشی باقی

حیات کیسے کٹے گی ہنسی خوشی باقی
نہ دوستی ہے سلامت، نہ دشمنی باقی
پتہ چلا کہ کسی اور کے وجود سے تھی
بجھا چراغ، مگر روشنی رہی باقی
تمام شہر تو مسمار ہو چکا کب کا
مگر فقیر کی اب بھی ہے جھونپڑی باقی
تمام عمر رلائے گا شوقِ دید ہمیں
تمام عمر رہے گی یہ تشنگی باقی
میاں! میں ہجر میں آنسو نہیں بہانے کا
یہی تو تیر ہے ترکش میں آخری باقی
وفورِ عشق میں کیا کیا نہیں کہا تُو نے
مگر وہ بات جو رہتی ہے ان کہی باقی
ہمارے پاس یہ سانسیں تِری امانت ہیں
تمہارے نام ہے، اب تو، یہ زندگی باقی
میرے وجود میں تُو ہے، یا پھر اداسی ہے
تجھے نکال کے بچتی ہے پھر یہی باقی

صغیرانور

No comments:

Post a Comment