رکھا ہے پاؤں یار نے دل کے مکان میں
لو آج میری جان بھی آئی ہے جان میں
اک دن ترا یہ ہجر مکمل کروں گا میں
یہ عمر پڑ رہی ہے یونہی درمیان میں
لیجے حضور ختم ہوئی داستانِ عشق
میں آخری چراغ تھا اس خاندان میں
ہم کو بھی اس کی شوخ جوانی نے آ لیا
ہم بھی شکار ہو گئے پہلی اڑان میں
تجھ پر قیام فرض ہے مجھ میں مقیم شخص
تیرے سبب شگاف ہے دل کی چٹان میں
اب تو نزول کر یہاں اے حسنِ لازوال
آ دیکھ اب تو میں بھی نہیں درمیان میں
ان سے تو عرضِ حال بھی کھل کر نہ کہہ سکے
گویا ہوئے تو آ گئی لکنت زبان میں
دل میں مقیم خواہشِ دنیا بھی، عشق بھی
انورؔ گھِرے ہوئے ہیں عجب امتحان میں
لو آج میری جان بھی آئی ہے جان میں
اک دن ترا یہ ہجر مکمل کروں گا میں
یہ عمر پڑ رہی ہے یونہی درمیان میں
لیجے حضور ختم ہوئی داستانِ عشق
میں آخری چراغ تھا اس خاندان میں
ہم کو بھی اس کی شوخ جوانی نے آ لیا
ہم بھی شکار ہو گئے پہلی اڑان میں
تجھ پر قیام فرض ہے مجھ میں مقیم شخص
تیرے سبب شگاف ہے دل کی چٹان میں
اب تو نزول کر یہاں اے حسنِ لازوال
آ دیکھ اب تو میں بھی نہیں درمیان میں
ان سے تو عرضِ حال بھی کھل کر نہ کہہ سکے
گویا ہوئے تو آ گئی لکنت زبان میں
دل میں مقیم خواہشِ دنیا بھی، عشق بھی
انورؔ گھِرے ہوئے ہیں عجب امتحان میں
صغیر انور
No comments:
Post a Comment