Sunday 23 August 2015

ہم نے تری خاطر سے دل زار بھی چھوڑا

ہم نے تِری خاطر سے دلِ زار بھی چھوڑا
تُو بھی نہ ہوا یار، اور اک یار بھی چھوڑا
کیا ہو گا رفُوگر سے رفُو، میرا گریبان
اے دوست جنوں تُو نے نہیں تار بھی چھوڑا
دِیں دے کے گیا کفر کے بھی کام سے عاشق
تسبیح کے ساتھ اس نے تو زنّار بھی چھوڑا
گوشہ میں تری چشم سیہ مست کے دل نے
کی جب سے جگہ، خانۂ خمار بھی چھوڑا
اس سے ہے غریبوں کو تسلی، کہ اجل نے
مفلس کو جو مارا، تو نہ زردار بھی چھوڑا
ٹیڑھے نہ ہو، ہم سے رکھو اخلاص تو سیدھا
تم پیار سے رکتے ہو تو لو پیار بھی چھوڑا
کیا چھوڑیں اسیرانِ محبت کو وہ، جس نے
صدقے میں نہ اک مرغِ گرفتار بھی چھوڑا
پہنچی مری رسوائی کی کیونکر خبر اس کو
اس شوخ نے تو دیکھنا اخبار بھی چھوڑا
کرتا تھا جو یاں آنے کا جھوٹا کبھی اقرار
مدت سے ظفرؔ اس نے وہ اقرار بھی چھوڑا

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment