شورِ زنجیر کو زنجیر کی رسوائی سمجھ
سنگ آئے تو اسے حاشیہ آرائی سمجھ
روشنی سارے چراغوں کی اسے ڈھونڈتی ہے
اب ہوا زور سے آئے گی، اسے آئی سمجھ
تُو سمندر کو بھی پایاب سمجھتا ہے، مگر
عکسِ مہتاب! مِری آنکھ کی گہرائی سمجھ
چشمِ پُر آب، بہت دل کی طرف دیکھتی ہے
آگ لگ جائے تو پانی کو تماشائی سمجھ
میں بھی زندہ ہوں مِرے زخم بھی زندہ فیصلؔ
کارِ آزار سمجھ، کارِ مسیحائی سمجھ
سنگ آئے تو اسے حاشیہ آرائی سمجھ
روشنی سارے چراغوں کی اسے ڈھونڈتی ہے
اب ہوا زور سے آئے گی، اسے آئی سمجھ
تُو سمندر کو بھی پایاب سمجھتا ہے، مگر
عکسِ مہتاب! مِری آنکھ کی گہرائی سمجھ
چشمِ پُر آب، بہت دل کی طرف دیکھتی ہے
آگ لگ جائے تو پانی کو تماشائی سمجھ
میں بھی زندہ ہوں مِرے زخم بھی زندہ فیصلؔ
کارِ آزار سمجھ، کارِ مسیحائی سمجھ
فیصل عجمی
No comments:
Post a Comment