Friday 28 August 2015

دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے

دکھ تو مضمر ہی میری جان میں تھے
میرے دشمن، مرے مکان میں تھے
ناخدا سے گِلہ،۔ نہ موسم سے
میرے طوفاں تو بادبان میں تھے
سب شکاری بھی مل کے کیا کرتے
شیر بیٹھے ہوئے مچان میں تھے
یہ قصیدے جو تیری شان میں ہیں
یہ قصیدے ہی اس کی شان میں تھے
یہ جو تیری وفا کے گاہک ہیں
یہ ابھی دوسری دکان میں تھے
تیشۂ "وقت" ہی "بتائے" گا
کتنے چہرے ابھی چٹان میں تھے
میں ہی اپنا "رقیب" تھا پرتوؔ
میرے جذبے ہی درمیان میں تھے

پرتو روہیلہ

No comments:

Post a Comment