Friday, 28 August 2015

کارزار: نحیف چڑیا، نزار چڑیا

کارزار

نحیف چِڑیا، نزار چِڑیا
حسِیں چِڑیا، جمیل چِڑیا
کسی شکاری کا گھاؤ کھا کر نجانے کب سے سڑک کنارے پڑی ہوئی تھی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مَری نہیں تھی

زمیں سے اس کو اٹھا کے میں نے قریب ہی اک درخت کی شاخ پر بٹھایا
کہیں سے چُلّو میں پانی لا کر اسے پلایا
وہ سانس دینے کا اک طریقہ کبھی جو بچپن میں جو میں نے سیکھا تھا، آزمایا
تو چند لمحوں میں اس نحیف و نزار چِڑیا نے سر اٹھایا
ابھی میں اپنی سِیہ ہستی کی ننھی نیکی پہ آفریں بھی نہ کہہ سکا تھا
کہ میں نے چِڑیا کو جَست بھرتے ہوا میں دیکھا
ہوا سے چڑیا جو واپس آئی
تو اس کی ننھی سی چونچ میں اک حسِین تتلی دبی ہوئی تھی
حسِین تِتلی، جمیل تِتلی
نحیف تِتلی، نزار تِتلی
پھڑک رہی تھی
تڑپ رہی تھی
مَری نہیں تھی 

پرتو روہیلہ

No comments:

Post a Comment