Saturday, 8 August 2015

جو میری آنکھوں نے دیکھا لوگو اگر بتا دوں تو کیا کرو گے

جو میری آنکھوں نے دیکھا لوگو! اگر بتا دوں تو کیا کرو گے
جو سن رہے ہو وہ کچھ نہیں ہے میں سب سنا دوں تو کیا کرو گے
یہ ہڈی بوٹی پہ پلنے والے تمہیں بھی جاں سے عزیز تر ہیں
میں ان کے گورے نسب کا شجرہ کہیں ملا دوں تو کیا کرو گے
یتیم دھرتی کے قاتلوں سے کوئی نہیں جو قصاص مانگے
میں اپنے بچوں کو درس دے کر اگر لگا دوں تو کیا کرو گے
اے گونگو! بہرو! جیو گے کب تک زمیں کے سینے پہ بوجھ بن کے
میں سارے ناگوں کے سب ٹھکانے تمہیں بتا دوں تو کیا کرو گے
یہ لکھنا پڑھنا، یہ کہنا سننا، امن کی خاطر ہی ہو رہا ہے
میں اپنی کاغذ قلم کی دنیا ابھی جلا دوں تو کیا کرو گے
اگر طلب ہے تمہیں کہ دیکھو وہ پہلے قطرے کا سولی چڑھنا
میں کوئے جاناں سے سوئے مقتل قدم اٹھا دوں تو کیا کرو گے
تمہاری آنکھوں میں دم نہیں ہے کہ سہہ سکیں وہ کوئی سویرا
میں شب کے سینے پہ مونگ دَل کے دِیا جلا دوں تو کیا کرو گے
یہ سچ کا ہیضہ جسے ہوا ہے وہ تم میں باقی کہاں رہا ہے
جو سو رہا ہے منافق عابیؔ، اسے جگا دوں تو کیا کرو گے

عابی مکھنوی

1 comment: