Saturday 29 August 2015

جنوں کی راکھ سے منزل میں رنگ کیا آئے

جنوں کی راکھ سے منزل میں رنگ کیا آئے
متاعِ درد تو ہم راہ میں لٹا آئے
وہ گرد اڑائی کسی نے کہ سانس گھٹنے لگی
ہٹے یہ راہ سے دیوار تو ہوا آئے
کسی مقامِ تمنا سے جب بھی پلٹے ہیں
ہمارے سامنے اپنے ہی نقشِ پا آئے
نمو کے بوجھ سے شاخیں نہ ٹوٹ جائیں کہیں
تم آؤ تو کوئی غنچہ کِھلے، صبا آئے
یہ دل کی پیاس یہ دنیا کے فاصلے باقیؔ
بہت قریب سے اب تو کوئی صدا آئے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment