Tuesday 4 August 2015

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے وہ خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے

جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے وہ خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہی درختوں سے اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر ایک چنبیلی کی اوٹ سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب اس کے بچے جو شہر جا کر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے

احمد سلمان

No comments:

Post a Comment