جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے وہ خود پہ گزرے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہی درختوں سے اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر ایک چنبیلی کی اوٹ سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب اس کے بچے جو شہر جا کر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
جب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
وہ جن درختوں کی چھاؤں میں سے مسافروں کو اٹھا دیا تھا
انہی درختوں سے اگلے موسم جو پھل نہ اترے تو لوگ سمجھے
اس ایک کچی سی عمر والی کے فلسفے کو کوئی نہ سمجھا
جب اس کے کمرے سے لاش نکلی، خطوط نکلے تو لوگ سمجھے
وہ خواب تھے ہی چنبلیوں سے، سو سب نے حاکم کی کر لی بیعت
پھر ایک چنبیلی کی اوٹ سے جو سانپ نکلے تو لوگ سمجھے
وہ گاؤں کا اک ضعیف دہقاں، سڑک کے بننے پہ کیوں خفا تھا
جب اس کے بچے جو شہر جا کر کبھی نہ لوٹے تو لوگ سمجھے
احمد سلمان
No comments:
Post a Comment