گرفتہ دل عندلیب، گھائل گلاب دیکھے
محبتوں نے سبھی رُتوں میں عذاب دیکھے
وہ دن بھی آئے صلیب گر بھی صلیب پر ہوں
یہ شہر اک روز پھر سے یومِ حساب دیکھے
یہ صبحِ کاذب تو رات سے بھی طویل تر ہے
وہ چشمِِ محروم کتنی محروم ہے کہ جس نے
نہ خواب دیکھے نہ رتجگوں کے عذاب دیکھے
کہاں کی آنکھیں کہ اب تو چہروں پہ آبلے ہیں
اور آبلوں سے بھلا کوئی کیسے خواب دیکھے
عجب نہیں ہے جو خوشبوؤں سے ہے شہر خالی
کہ میں نے دہلیزِ قاتلاں پر گلاب دیکھے
یہ ساعتِ دید، اور وحشت بڑھا گئی ہے
کہ جیسے کوئی جنوں زدہ ماہتاب دیکھے
مجھے تو ہم مکتبی کے دن یاد آ گئے ہیں
کہ میں اسے پڑھ رہا ہوں اور وہ کتاب دیکھے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment