Tuesday 4 August 2015

جو خمار ہے تیرے عشق کا اسے موت کیسے فنا کرے

جو خمار ہے تیرے عشق کا اسے موت کیسے فنا کرے
وہ تو پہلے موت سے مر گیا تیرے عشق میں جو جیا کرے
مجھے گدڑی والے پسند ہیں مجھے عشق دامنِ چاک سے
کوئی اور ہے نہیں میں نہیں وہ جو دامن اپنا سیا کرے
اے ہوائے کوچۂ یار سن! اسے کہنا تیری ہی ہے لگن
تیرے ہجر میں وہ مرا پڑا ترے وصل میں جو جیا کرے
میرے ساقیا میرے دلربا میں نے پی ہے مے تیرے عشق کی
جو بھلانا چاہے غم جہاں تیرے مے کدے سے پیا کرے
میرے روز و شب تیری چاہ میں یونہی بے مزہ سے گزر رہے
مجھے وصل کی ہے تڑپ اعجازؔ کوئی زندگی سے جدا کرے

No comments:

Post a Comment