Saturday 29 August 2015

دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے

دل کا ہر زخم سی لیا ہم نے
صبر کا جام پی لیا ہم نے
کیسے انساں، کس کی آزادی
سر پہ الزام ہی لیا ہم نے
لو بدل دو حیات کا نقشہ
اپنی آنکھوں کو سی لیا ہم نے
حادثاتِ جہاں نے راہ نہ دی
آپ کا نام بھی لیا ہم نے
اور کیا چاہتے ہیں وہ باقیؔ
خونِ دل تک تو پی لیا ہم نے

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment