Sunday 9 August 2015

یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں

یقین برسوں کا، امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں
پھر اس کے بعد مجھے حرف حرف ہونا ہے
تمہارے ہاتھ میں دیوان کچھ دنوں کا ہوں
کسی بھی دن اسے سر سے اتار پھینکوں گا
میں خود پہ بوجھ میری جان کچھ دنوں کا ہوں
زمیں زادے! مِری عمر کا حساب نہ کر
اٹھا کے دیکھ لے میزان کچھ دنوں کا ہوں
مجھے یہ دکھ کہ حشراتِ شب! تمہارے لیے
میں خورد و نوش کا سامان کچھ دنوں کا ہوں
کہ چند راتوں سے ششدر ہوں چند راتوں کا
کہ کچھ دنوں سے میں حیران کچھ دنوں کا ہوں
گزر ہی جائیں گے ناسکؔ یہ دن بغیر گنے
میں اپنے وقت کی پہچان کچھ دنوں کا ہوں

اطہر ناسک

No comments:

Post a Comment