Tuesday 4 August 2015

جو دل نے کہی لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو

جو دل نے کہی، لب پہ کہاں آئی ہے دیکھو
اب محفلِ یاراں میں بھی تنہائی ہے دیکھو
پھولوں سے ہوا بھی کبھی گھبرائی ہے دیکھو
غنچوں سے بھی شبنم کبھی کترائی ہے دیکھو
اب ذوقِ جنوں، وجہِ طلب ٹھہر گیا ہے
اب عرضِ وفا باعثِ رسوائی ہے دیکھو
غم اپنے ہی اشکوں کا خریدار ہوا ہے
دل اپنی ہی حالت کا تماشائی ہے دیکھو

زہرا نگاہ

No comments:

Post a Comment