Sunday 9 August 2015

اتنا سناٹا ہے بستی میں کہ ڈر جائے گا

اتنا سناٹا ہے بستی میں کہ ڈر جائے گا
چاند نکلا بھی تو چپ چاپ نکل جائے گا
کیا خبر تھی، کہ ہوا تیز چلے گی اتنی
سارا صحرا میرے چہرے پہ بکھر جائے گا
ہم کسی موڑ پہ رک جائیں گے چلتے چلتے
راستہ ٹوٹے ہوئے پُل پہ ٹھہر جائے گا
بادبانوں نے جو احسان جتایا، اس پر
بیچ دریا میں وہ کشتی سے اتر جائے گا
چلتے رہیے کہ صفِ ہم سفراں لمبی ہے
جس کو رستے میں ٹھہرنا ہے ٹھہر جائے گا
در و دیوار پہ صدیوں کی کُہر چھائی ہے
گھر میں سورج بھی جو آیا تو ٹھٹھر جائے گا
فن وہ جگنو ہے جو اڑتا ہے ہوا میں قیصر
بند کر لو گے جو مُٹھی میں تو مر جائے گا

قیصر الجعفری

No comments:

Post a Comment