Monday 31 August 2015

ان کا یا اپنا تماشا دیکھو

ان کا یا اپنا تماشا دیکھو
جو دکھاتا ہے زمانہ دیکھو
وقت کے پاس ہیں کچھ تصویریں
کوئی ڈوبا ہے کہ ابھرا دیکھو
رنگ ساحل کا نکھر آئے گا
دو گھڑی جانب دریا دیکھو
تلملا اٹھا، گھنا سناٹا
پھر کوئی نیند سے چونکا دیکھو
ہمسفر غیر ہوئے جاتے ہیں
فاصلہ رہ گیا کتنا دیکھو
برف ہو جاتا ہے صدیوں کا لہو
ایک ٹھہرا ہوا لمحہ دیکھو
رنگ اڑتے ہیں تبسم کی طرح
آئینہ خانوں کا دعویٰ دیکھو
دل کی بگڑی ہوئی صورت ہے یہاں
اب کوئی اور خرابہ دیکھو
یا کسی پردے میں گم ہو جاؤ
یا اٹھا کر کوئی پردہ دیکھو
دوستی خونِ جگر چاہتی ہے
کام مشکل ہے تو رستہ دیکھو
سادہ کاغذ کی طرح دل چپ ہے
حاصلِ رنگِ تمنا دیکھو
یہی تسکین کی صورت ہے تو پھر
چار دن غم کو بھی اپنا دیکھو
غمگساروں کا سہارا کب تک
خود پہ بھی کر کے بھروسا دیکھو
اپنی نیت پہ نہ جاؤ باقیؔ
رخ زمانے کی ہوا کا دیکھو

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment