Monday 3 August 2015

فرات فاصلہ و دجلہ دعا سے ادھر

فراتِ فاصلہ و دجلۂ دعا سے ادھر
کوئی پکارتا ہے دشتِ نینوا سے ادھر
کسی کی نیم نگاہی کا جل رہا ہے چراغ
نگار خانۂ آغاز و انتہا سے ادھر
میں آگ دیکھتا تھا آگ سے جدا کر کے
بلا کا رنگ تھا رنگینئ قبا سے ادھر
میں راکھ ہو گیا طاؤسِ رنگ کو چھو کر
عجیب رنگ تھا دیوارِ پیش پا سے ادھر
زمیں میرے لیے پھول لے کے آتی تھی
بساطِ معرکۂ صبر آزما سے ادھر
یہ میرے ہونٹ سمندر کو چوم سکتے ہیں
حکایتِ شبِ افراد و آئینہ سے ادھر

ثروت حسین

No comments:

Post a Comment