Sunday 23 August 2015

میری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نور جمال تھا

میری آنکھ بند تھی جب تلک وہ نظر میں نورِ جمال تھا
کھلی آنکھ تو نہ خبر رہی کہ وہ خواب تھا کہ خیال تھا
دمِ بِسمل اے بت عشوہ گر! خوشی عید کی سی ہوئی مجھے
خمِ تیغ تیرا جو سامنے نظر آیا مثلِ ہلال تھا
کہو اس تصورِ یار کو کہوں کیوں نہ خضرِؑ خجستہ پے
کہ یہی تو دشتِ فراق میں مجھے رہنمائے وصال تھا
مِرے دل میں تھا کہ کہوں گا میں یہ جو دل پہ رنج و ملال تھا
وہ جب آ گئے مِرے سامنے تو نہ رنج تھا نہ ملال تھا
وہ ہے بے وفا وہ ہے پُر جفا، وہاں لطف کیسا، وفا کہاں
فقط اپنا وہم و خیال تھا، یہ خیال ابرِ مجال تھا
پسِ پردہ سن کے تِری صدا، تِرا شوقِ دید جو بڑھ گیا
مجھے اضطرابِ کمال تھا، یہی وجد تھا، یہی حال تھا
ظفرؔ اس سے چھٹ کے جو جست کی تو یہ جانا ہم نے کہ واقعی
فقط ایک قید خودی کی تھی، نہ قفس تھا کوئی، نہ جال تھا

 بہادر شاہ ظفر

No comments:

Post a Comment