Monday 31 August 2015

صبح کا بھید کیا ملا ہم کو

صبح کا بھید کیا ملا ہم کو
لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو
شوقِ نظارہ کا پردہ اٹھا
نظر آنے لگی دنیا ہم کو
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو
بھیڑ میں کھو گئے آخر ہم بھی
نہ ملا جب کوئی رستہ ہم کو
تلخئ غم کا مداوا معلوم
پڑ گیا زہر کا چسکا ہم کو
تیرے غم سے تو سکوں ملتا ہے
اپنے شعلوں نے جلایا ہم کو
گھر کو یوں دیکھ رہے ہیں جیسے
آج ہی گھر نظر آیا ہم کو
ہم کہ ہیں شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تُو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
جلوۂ لالہ و گل ہے دیوار
کبھی ملتے سرِ صحرا ہم کو
لے اڑی دل کو نسیمِ سحری
بوئے گل کر گئی تنہا ہم کو
سیرِ گلشن نے کیا آوارہ
لگ گیا روگ صبا کا ہم کو
یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں
تھام لے اے گلِ تازہ ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتہ ہم کو

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment