Monday 10 August 2015

پھر دھندلکا سا ہوا رات کے آثار گئے

پھر دھندلکا سا ہوا، رات کے آثار گئے
جام و مینا کو سنبھالے ہوئے میخوار گئے
شمعیں گل ہو گئیں، پروانے گئے، بزم اٹھی
میں ہی میں رہ گیا، سب ان کے طرفدار گئے
یہ عجب مے ہے، عجب نشہ، عجب محفل ہے
کہ جو مدہوش یہاں آئے تھے، ہُشیار گئے
آنکھ سے آنکھ مِلی، دل کی حقیقت معلوم
میرے سب حِیلے بہانے یونہی بے کار گئے
آہ و فریاد گئی، آنکھ میں آنسو نہ رہے
غم بھی جاتا رہا تاثیرؔ جو غمخوار گئے

ایم ڈی تاثیر
محمد دین تاثیر

No comments:

Post a Comment