Monday 17 August 2015

دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے

دنیا میری بلا جانے، مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں، ہستی کی کیا ہستی ہے
آبادی بھی دیکھی ہے، ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اجڑے اور پھر نہ بسے، دل وہ نرالی بستی ہے
عجزِ گناہ کے دم تک ہیں، عصمتِ کامل کے جلوے
پستی ہے تو بلندی ہے، رازِ بلندی، پستی ہے
آنسو تھے کہ ختم ہوئے، جی ہے، کہ امڈ آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے، نہ برستی ہے
جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی، ان داموں تو سستی ہے
جگ سُونا ہے تیرے بغیر، آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی، اب بھی دنیا بستی ہے
دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے
فانیؔ! جس میں آنسو کیا، دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب، پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے​

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment