Tuesday 4 August 2015

اندھیری رہ میں مسافر کہیں نہ بھٹکا تھا

اندھیری رہ میں مسافر کہیں نہ بھٹکا تھا
کسی منڈیر پہ جب تک چراغ جلتا تھا
وہ کتنی دور رہا، فیصلہ بھی اس کا تھا
مجھے تو قرب کے احساس نے سنبھالا تھا
یہی غبارِ شب و روز کا کمال بھی ہے
جو آنکھ دیکھ نہ پائی وہ دل نے دیکھا تھا
سفر تمام ہوا اور حیرتیں نہ گئیں
جو قربتیں تھیں وہاں فاصلہ بلا کا تھا
نہ جانے لوگ کہاں تھے، زمانہ تھا کہ نہیں
زمیں پہ میں تھی فلک پر بس اک ستارا تھا
یہی خطا کہ پجارن تھی اور نہ دیوی تھی
بڑی خطا تھی کہ خود کو بھی میں نے چاہا تھا
جو اذن ہو تو میں کچھ دیر اپنے پاس رہوں
کہا نہیں تھا یہ، بس یوں ہی دل نے سوچا تھا
نہ آستاں نہ کوئی بام و در ہی جی کو لگے
چلن سدا سے یہی سر پھری ہوا کا تھا

ادا جعفری

No comments:

Post a Comment