چاندنی، جھیل نہ شبنم نہ کنول میں ہو گا
اب تِرا عکس فقط اپنی غزل میں ہو گا
جس سے منسوب ہے تقدیرِ دو عالم کا مزاج
وہ ستارہ بھی تِری زلف کے بَل میں ہو گا
اور اک سانس کو جینے کی تمنا کر لیں
راکھ ماضی کی کریدو، نہ پلٹ کر دیکھو
آج کا دن بھی ہُوا گُم تو وہ کل میں ہو گا
کیوں کسی موڑ پہ رک رک کے صدا دیں اس کو
وہ تو مصروف مسافت کے عمل میں ہو گا
ہجر والو! وہ عدالت بھی قیامت ہو گی
فیصلہ ایک صدی کا جہاں پَل میں ہو گا
اس کو نیندوں کے نگر میں نہ بساؤ محسنؔ
ورنہ شامل وہی نیندوں کے خلل میں ہو گا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment