Saturday 29 August 2015

آئی نہ پھر نظر کہیں جانے کدھر گئی

آئی نہ پھر نظر کہیں، جانے کدھر گئی
ان تک تو ساتھ گردشِ شام و سحر گئی
کچھ اتنا بے ثبات تھا ہر جلوۂ حیات
لوٹ آئی زخم کھا کے جدھر بھی نظر گئی
نادم ہے اپنے اپنے قرینے پہ ہر نظر
دنیا لہو اچھال کے کتنی نکھر گئی
آ دیکھ، مجھ سے روٹھنے والے ترے بغیر
دن بھی گزر گیا، شبِ غم بھی گزر گئی
شبنم ہو کہکشاں ہو، ستارے ہوں، پھول ہوں
جو شے تمہارے سامنے آئی، نکھر گئی
باقیؔ بس ایک دل کے سنبھلنے کی دیر تھی
ہر چیز اپنی اپنی جگہ پر ٹھہر گئی

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment