Friday 28 August 2015

اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا

اس آنکھ سے وحشت کی تاثیر اٹھا لایا
میں جاگتے رہنے کی تدبیر اٹھا لایا
میں نیّتِ شب خوں سے خیمے میں گیا لیکن
دشمن کے سرہانے سے شمشیر اٹھا لایا
وہ صبحِ رہائی تھی یا شامِ اسیری تھی
جب میں درِ زنداں سے زنجیر اٹھا لایا
آوارہ مزاجی پر حرف آنے سے پہلے ہی
دل تیرے تغافل کی تصویر اٹھا لایا
اے خوابِ پزیرائی! تُو کیوں مری آنکھوں میں
اندیشۂ دنیا کی تعبیر اٹھا لایا
وہ سنگِ ملامت تھا جس کو تیرا دل کہہ کر
اس کوچے سے مجھ جیسا راہگیر اٹھا لایا
اس شخص سے میں سب کو عجلت میں ملا بیٹھا
اور اپنے لئے کیسی تاخیر اٹھا لایا
میدانِ شکایت سے کیا اپنے سوا لاتا
اک رنج تھا میں جس کی تعمیر اٹھا لایا
اس بزمِ سخن میں ہم کیا پہنچے کہ شور اٹھا
لو، عزمؔ کوئی زخمی تحریر اٹھا لایا

عزم بہزاد

No comments:

Post a Comment