Saturday 1 August 2015

میں نے یہ کب کہا تھا کہ سارا ادھیڑ دے

میں نے یہ کب کہا تھا کہ سارا ادھیڑ دے
جتنی بُنت خراب ہے، اتنا ادھیڑ دے
ان کا نصیب بس وہی صحرا کی خاک ہے
جن کو فراقِ یار کا لمحہ ادھیڑ دے
ممکن ہے اب کی بار میں آدھا دکھائی دوں
ممکن ہے تیرا ہجر یہ چہرہ ادھیڑ دے
ممکن ہے میری آنکھ پہ منظر نہ کھل سکیں
ممکن ہے کوئی خواب کا بخیہ ادھیڑ دے
ممکن ہے تیرے پاس نہ ملنے کا عذر ہو
ممکن ہے کوئی شہر کا رستہ ادھیڑ دے
انورؔ کہا تھا عشق نے چمڑی ادھیڑ دوں
میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ، اچھا ادھیڑ دے

صغیر انور 

No comments:

Post a Comment