Sunday 23 August 2015

کسی گلی کسی کوچے میں گھر دیئے جائیں

کسی گلی کسی کوچے میں گھر دیئے جائیں
وگرنہ شہر بدر لوگ کر دیئے جائیں
امیرِ شہر کی سنتے ہیں اب یہ خواہش ہے
ہمارے پاؤں ہمیں باندھ کر دیئے جائیں
قدم قدم پہ کھڑی ہو رہی ہوں دیواریں
تو گام گام پہ لازم ہے سر دیئے جائیں
محبتوں کو ہے اب بھی سنبھالنا دشوار
کچھ اور راستے ہموار کر دیئے جائیں
ابھی غرور ہواؤں کا توڑ دیتے ہیں
ہمیں ہمارے ذرا بال و پر دیئے جائیں
یہ شہر جھیل چکا آفتیں قیامت کی
اب اس کو ڈھنگ کے شام و سحر دیئے جائیں

سعید الظفر صدیقی

No comments:

Post a Comment