Saturday 29 August 2015

تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں

تارے درد کے جھونکے بن کر آتے ہیں
ہم بھی نیند کی صورت اڑتے جاتے ہیں
جب انداز بہاروں کے یاد آتے ہیں
ہم کاغذ پر کیا کیا پھول بناتے ہیں
وقت کا پتھر بھاری ہوتا جاتا ہے
ہم مٹی کی صورت دیتے جاتے ہیں
کیا ذروں کا جوش صبا نے چھین لیا
گلشن میں کیوں یاد بگولے آتے ہیں
دنیا نے ہر بات میں کیا کیا رنگ بھرے
ہم سادہ اوراق الٹتے جاتے ہیں
دل ناداں ہے، شاید راہ پہ آ جائے
تم بھی سمجھو ہم بھی سمجھاتے ہیں
تم بھی الٹی الٹی باتیں پوچھتے ہو
ہم بھی کیسی کیسی قسمیں کھاتے ہیں
بیٹھ کے روئیں کس کو فرصت ہے باقیؔ
بھُولے بِسرے قصے یاد تو آتے ہیں

باقی صدیقی

No comments:

Post a Comment