پھول صحراؤں میں کھلتے ہوں گے
آ کے بچھڑے ہوئے ملتے ہوں گے
کتنی ویران گزرگاہوں سے
سلسلے خواب کے ملتے ہوں گے
آس ٹوٹے گی، نہ جی سنبھلے گا
چاکِ دل بھی کہیں سِلتے ہوں گے
صبح زنداں میں بھی ہوتی ہو گی
پھول مقتل میں بھی کھلتے ہوں گے
ہم بھی خوشبو ہیں صبا سے کہیو
ہم نفس روز نہ ملتے ہوں گے
اجنبی شہر میں اپنوں سے اداؔ
اتفاقاً بھی تو ملتے ہوں گے
آ کے بچھڑے ہوئے ملتے ہوں گے
کتنی ویران گزرگاہوں سے
سلسلے خواب کے ملتے ہوں گے
آس ٹوٹے گی، نہ جی سنبھلے گا
چاکِ دل بھی کہیں سِلتے ہوں گے
صبح زنداں میں بھی ہوتی ہو گی
پھول مقتل میں بھی کھلتے ہوں گے
ہم بھی خوشبو ہیں صبا سے کہیو
ہم نفس روز نہ ملتے ہوں گے
اجنبی شہر میں اپنوں سے اداؔ
اتفاقاً بھی تو ملتے ہوں گے
ادا جعفری
No comments:
Post a Comment