Friday 21 August 2015

کس طرح کوئی دھوپ میں پگھلے ہے جلے ہے

کس طرح کوئی دھوپ میں پگھلے ہے جلے ہے
یہ بات وہ کیا جانے، جو سائے میں پلے ہے
دل درد کی بھٹی میں کئی بار جلے ہے
تب ایک غزل حسن کے سانچے میں ڈھلے ہے
کیا دل ہے کہ اک سانس بھی آرام نہ لے ہے
محفل سے جو نکلے ہے تو خلوت میں جلے ہے
بھولی ہوئی یاد آ کے کلیجے کو مَلے ہے
جب شام گزر جائے ہے، جب رات ڈھلے ہے
ہاں دیکھ ذرا، کیا ترے قدموں کے تلے ہے
ٹھوکر بھی وہ کھائے ہے، جو اِترا کے چلے ہے

کلیم عاجر

No comments:

Post a Comment