Wednesday 5 August 2015

خموشی کی زبان میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے

خموشی کی زبان میں گفتگو کرنی بھی آتی ہے
ہمیں اشکوں سے شرحِ آرزو کرنی بھی آتی ہے
فقط ہاتھوں کو مہندی سے رچانا ہی نہیں آتا
انہیں ہر آرزو میری لہو کرنی بھی آتی ہے
نہیں دشوار کوئی، منزلِ مقصود کا ملنا
سفر درپیش ہو تو جستجو کرنی بھی آتی ہے
ادب مانع ہے، لیکن بارگاہِ ناز میں جا کر
ہمیں ہر بات ان سے روبرو کرنی بھی آتی ہے
کہیں ایسا نہ ہو گھبرا کہ وہ محفل سے اٹھ جائیں
کہ اس ناچیز کو کچھ ہا و ہو کرنی بھی آتی ہے
کسی کے مرتبے کا پاس ہے وقتِ سخن لازم
تمہیں واعظ کسی سے گفتگو کرنی بھی آتی ہے
بہا کر خونِ دل، ارمانِ سب اپنے لہو کر کے
ترے کوچے کی مٹی سرخرو کرنی بھی آتی ہے
جنابِ شیخ اکثر مے کدے سے بے پیے نکلے
بحمداللہ عبادت بے وضو کرنی بھی آتی ہے
نصیرؔ اپنوں کی عزت لوگ کرتے آئے ہیں لیکن
وہ ہم ہیں جن کو تعظیمِ عدو کرنی بھی آتی ہے

سید نصیرالدین نصیر

No comments:

Post a Comment