آنکھوں کے خواب زار کو تاراج کر گئی
پاگل ہوا چلی تو حدوں سے گزر گئی
دو گام تک ہی سبز مناظر تھے، اس کے بعد
اک دشتِ بے کراں تھا، جہاں تک نظر گئی
پھر شام کی ہوا نے تری بات چھیڑ دی
پل بھر وہ چشمِ تر سے مجھے دیکھتا رہا
پھر اس کے آنسوؤں سے مری آنکھ بھر گئی
دو سائے اک مینار کے نیچے بہم ہوئے
اور دھوپ کوہسار کے پیچھے اتر گئی
میں دشت میں بھٹکتا رہا اور ہوائے گُل
مجھ کو تلاش کرتی ہوئی در بدر گئی
لہجے میں وہ اثر تھا کہ باوصفِ اختلاف
جو بات منہ سے نکلی دِلوں میں اتر گئی
مقبول عامر
No comments:
Post a Comment