Thursday 27 August 2015

آنکھوں کے خواب زار کو تاراج کر گئی

آنکھوں کے خواب زار کو تاراج کر گئی 
پاگل ہوا چلی تو حدوں سے گزر گئی 
دو گام تک ہی سبز مناظر تھے، اس کے بعد 
اک دشتِ بے کراں تھا، جہاں تک نظر گئی 
پھر شام کی ہوا نے تری بات چھیڑ دی 
پھر میرے چار سُو تری خوشبو بکھر گئی
پل بھر وہ چشمِ‌ تر سے مجھے دیکھتا رہا 
پھر اس کے آنسوؤں سے مری آنکھ بھر گئی 
دو سائے اک مینار کے نیچے بہم ہوئے 
اور دھوپ کوہسار کے پیچھے اتر گئی 
میں‌ دشت میں بھٹکتا رہا اور ہوائے گُل 
مجھ کو تلاش کرتی ہوئی در بدر گئی 
لہجے میں وہ اثر تھا کہ باوصفِ اختلاف 
جو بات منہ سے نکلی دِلوں‌ میں ‌اتر گئی​

مقبول عامر

No comments:

Post a Comment