گہرے کچھ اور ہو کے رہے زندگی کے زخم
خود آدمی نے چھیل دیئے، آدمی کے زخم
پھر بھی نہ مطمئن ہوئی تہذیبِ آستاں
ہم نے جبیں پہ ڈال دیئے بندگی کے زخم
پھر سے سجا رہے ہیں اندھیروں کی انجمن
قحطِ وفا میں کاش کبھی یوں بھی ہو سکے
اک اجنبی کا ہاتھ ہو، اور اجنبی کے زخم
اک تم نے کیا دیا ہے، فریبِ تعلقات
اعجازؔ کھا چکا ہے بہت دوستی کے زخم
اعجاز صدیقی
No comments:
Post a Comment