Tuesday, 25 August 2015

گہرے کچھ اور ہو کے رہے زندگی کے زخم

گہرے کچھ اور ہو کے رہے زندگی کے زخم
خود آدمی نے چھیل دیئے، آدمی کے زخم
پھر بھی نہ مطمئن ہوئی تہذیبِ آستاں
ہم نے جبیں پہ ڈال دیئے بندگی کے زخم
پھر سے سجا رہے ہیں اندھیروں کی انجمن
وہ تیرہ بخت جن کو ملے روشنی کے زخم
قحطِ وفا میں کاش کبھی یوں بھی ہو سکے
اک اجنبی کا ہاتھ ہو، اور اجنبی کے زخم
اک تم نے کیا دیا ہے، فریبِ تعلقات
اعجازؔ کھا چکا ہے بہت دوستی کے زخم​

اعجاز صدیقی 

No comments:

Post a Comment