Monday 17 August 2015

صرف اتنے جرم پر ہنگامہ ہوتا جائے ہے

صرف اتنے جرم پر ہنگامہ ہوتا جائے ہے 
تیرا دیوانہ تِری گلیوں میں دیکھا جائے ہے 
آپ کس کس کو بھلا سُولی چڑھاتے جائیں گے
اب تو سارا شہر ہی "منصور" بنتا جائے ہے
دلبروں کے بھیس میں پھرتے ہیں چوروں کے گروہ
جاگتے رہیو، کہ ان راتوں میں لُوٹا جائے ہے 
تیرا مے خانہ ہے یا خیرات خانہ، ساقیا
اس طرح ملتا ہے بادہ، جیسے بخشا جائے ہے 
مے کشو! آگے بڑھو، تشنہ لبو! آگے بڑھو
اپنا حق مانگا نہیں جاتا ہے، چھینا جائے ہے 
موت آئی اور تصور آپ کا رخصت ہوا
جیسے منزل تک کوئی رہرو کو پہنچا جائے ہے

کیف بھوپالی

No comments:

Post a Comment