فنا فی العشق ہونے کو جو بربادی سمجھتے ہو
تو پھر یہ طے ہے کہ تم دنیا کو بنیادی سمجھتے ہو
تمہیں ہم عشق کی سرگم سناتے ہیں، یہ بتلاؤ
فنا کے راگ سے واقف ہو، سم وادی سمجھتے ہو
کسی صاحبِ جنوں سے عقل کی تعریف سن لینا
اسی کی شوخیٔ تحریر کا ایک نقش ہوں میں بھی
بقول میرزا، تم جس کو فریادی سمجھتے ہو
حقیقت تو کجا، تم تو طریقت بھی نہیں سمجھے
کہ تم تو جسم سے جانے کو آزادی سمجھتے ہو
اسی کے خوانِ نعمت کے سگانِ لقمۂ تر ہو
تعجب کیا، جو تم دنیا کو شہزادی سمجھتے ہو
عجب ہو تم بھی اہلِ منبر و محراب، جو ہم کو
کبھی کافر سمجھتے تھے، اب الحادی سمجھتے ہو
تو پھر تم ہی بتا دو ہم کہاں جائیں علی زریون
ہماری سادگی کو بھی تم استادی سمجھتے ہو
علی زریون
No comments:
Post a Comment