Monday, 3 August 2015

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارہ

بھر جائیں گے جب زخم تو آؤں گا دوبارا
میں ہار گیا جنگ، مگر، دل نہیں ہارا
روشن ہے مِری عمر کے تاریک چمن میں
اس کنجِ ملاقات میں جو وقت گزارا
اپنے لیے تجویز کی، شمشیرِ برہنہ
اور اس کے لیے شاخ سے اک پھول اتارا
کچھ سیکھ لوں لفظوں کو برتنے کا سلیقہ
اس شغل میں گزرا ہے بہت وقت ہمارا
لب کھولے پری زاد نے آہستہ سے ثروت
جوں گفتگو کرتا ہے ستارے سے ستارا

ثروت حسین

No comments:

Post a Comment